پاکستان میں سیلاب ایک مسلسل آنے والی قدرتی آفت ہے جو ہر سال لاکھوں لوگوں کی زندگیوں اور معیشت پر تباہ کن اثرات ڈالتی ہے۔ یہ سیلاب عموماً مون سون کے موسم میں شدید بارشوں کے باعث آتے ہیں، جب دریاؤں میں طغیانی پیدا ہوتی ہے اور پانی قریبی آبادیوں میں داخل ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ، شمالی علاقوں میں گلیشیئرز کا تیزی سے پگھلنا، ناقص نکاسی آب کا نظام، دریا کنارے غیر قانونی تعمیرات، جنگلات کی بے دریغ کٹائی اور ڈیموں و پشتوں کی کمی بھی سیلاب کی شدت میں اضافہ کرتے ہیں۔ پاکستان کے شہری اور دیہی علاقوں میں منصوبہ بندی کی کمی اور ماحولیاتی تبدیلیوں نے اس مسئلے کو مزید سنگین بنا دیا ہے۔
سیلاب کے نتیجے میں سینکڑوں افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں، لاکھوں لوگ بے گھر ہو جاتے ہیں، اور زراعت کو شدید نقصان پہنچتا ہے، جس سے غذائی قلت پیدا ہو سکتی ہے۔ سڑکیں، پل، مکانات اور دیگر بنیادی ڈھانچے تباہ ہو جاتے ہیں، جس سے ملک کی معیشت کو اربوں روپے کا نقصان ہوتا ہے۔ آلودہ پانی اور ناقص صفائی کی وجہ سے صحت عامہ کے مسائل بھی پیدا ہوتے ہیں، جن میں ڈائریا، ہیضہ، اور ڈینگی جیسی بیماریاں شامل ہیں۔ 2022 کا سیلاب پاکستان کی تاریخ کا بدترین سیلاب ثابت ہوا، جس میں 1,700 سے زائد افراد جان سے گئے اور 33 ملین لوگ متاثر ہوئے، جبکہ معیشت کو تقریباً 30 ارب ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا.اس سال پاکستان میں سیلاب نے بڑے پیمانے پر تباہی مچائی ہے۔ جون سے شروع ہونے والی مون سون بارشوں اور دریاؤں کی طغیانی نے پنجاب اور سندھ سمیت کئی صوبوں کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ لاکھوں لوگ متاثر ہوئے ہیں، اور زرعی زمینوں کو شدید نقصان پہنچا ہے جس سے معیشت پر بُرا اثر پڑا ہے.
اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے کہ حکومت اور متعلقہ ادارے جدید انفراسٹرکچر کی تعمیر، ڈیموں کی بہتری، ندی نالوں کی صفائی، درختوں کی شجرکاری، اور بروقت و مؤثر وارننگ سسٹم پر کام کریں۔ عوامی شعور بیدار کرنے اور طویل مدتی منصوبہ بندی کے ذریعے ہی پاکستان اس قدرتی آفت کے نقصانات کو کم کر سکتا ہے۔







