جب ہم کہتے ہیں کہ دنیا بدل رہی ہے، تو اس جملے کا مطلب شاید کبھی اتنا گہرا نہیں تھا جتنا آج ہے۔ اکیسویں صدی کی دوسری دہائی نے جس رفتار سے ٹیکنالوجی کو آگے بڑھایا ہے، وہ انسانی تاریخ میں بے مثال ہے۔ ان سب تبدیلیوں کے بیچ ایک لفظ بار بار ہمارے کانوں میں گونجتا ہے: مصنوعی ذہانت – یعنی Artificial Intelligence، یا مختصراً AI۔
مصنوعی ذہانت وہ صلاحیت ہے جس کے ذریعے مشینیں انسانوں کی طرح سوچنے، سمجھنے، فیصلہ کرنے اور یہاں تک کہ تخلیق کرنے کے قابل ہو رہی ہیں۔ یہ کوئی دور کی بات نہیں۔ آج ہم ایسی دنیا میں جی رہے ہیں جہاں AI نہ صرف ہماری زندگیوں کو آسان بنا رہا ہے بلکہ کئی شعبوں میں انسان کی جگہ بھی لے رہا ہے۔
تعلیم، طب، زراعت، صحافت، عدالت، فیکٹریاں، دفاع – شاید ہی کوئی شعبہ ہو جہاں AI نے قدم نہ رکھ دیا ہو۔ آج ایک ڈاکٹر AI کی مدد سے کینسر کی تشخیص کر رہا ہے، ایک وکیل پیچیدہ مقدمات کی تیاری میں AI سے مدد لے رہا ہے، اور ایک کسان AI کی مدد سے بہتر فصل اگا رہا ہے۔
مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ سب واقعی انسانیت کے حق میں ہے؟ کیا AI ہماری مددگار ٹیکنالوجی ہے یا مستقبل کا ایک نادیدہ خطرہ؟
آج جب ہم AI کی سہولتوں سے لطف اندوز ہو رہے ہیں، ہمیں اس کے اندھیرے پہلوؤں پر بھی غور کرنا ہوگا۔ بے روزگاری، پرائیویسی کا خاتمہ، ذہنی کاہلی، اور انسان کے تخلیقی شعور پر اثر – یہ سب وہ مسائل ہیں جن کے بیج AI کے اندر موجود ہیں۔ جب مشینیں انسان سے زیادہ سوچنے لگیں، تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر انسان کا کردار کیا رہ جائے گا؟
دوسری طرف، اگر AI کو صحیح سمت میں استعمال کیا جائے تو یہ ایک نعمت بن سکتی ہے۔ مثلاً بیماریوں کی بروقت تشخیص، تعلیمی مواد کی ہر بچے تک رسائی، قدرتی آفات کی پیشگی اطلاع – یہ سب ایسے شعبے ہیں جہاں AI انسانیت کے لیے ایک انقلاب بن سکتا ہے۔
آج کی دنیا تیز ہے، بدلتی ہوئی ہے، اور کسی کے انتظار میں نہیں رکتی۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ AI ہمارے لیے ایک مددگار ساتھی بنے، تو ہمیں خود بھی سیکھنا ہوگا، سمجھنا ہوگا، اور AI کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنا ہوگا۔ نہ اندھی مخالفت، نہ اندھی تقلید – بلکہ ایک سمجھدار، توازن پر مبنی رویہ ہی ہمیں اس نئے دور میں کامیاب بنا سکتا ہے۔یقیناً، AI ہمارا مستقبل ہے۔ لیکن یہ مستقبل کیسا ہوگا، اس کا انحصار ہم پر ہے.







