پاکستان میں “سروائیکل کینسر ویکسین” کی دستیابی — ایک نظر انداز شدہ ضرورت

پاکستان میں خواتین کی صحت سے متعلق جن سنجیدہ مسائل کو اکثر نظر انداز کیا جاتا ہے، اُن میں سروائیکل کینسر ایک اہم مگر کم زیرِ بحث آنے والا مرض ہے۔ سروائیکل کینسر کی سب سے بڑی وجہ ہیومن پیپیلوما وائرس (HPV) ہے، جو ایک عام وائرس ہے اور جنسی تعلقات کے ذریعے منتقل ہوتا ہے۔ دنیا بھر میں اس بیماری سے بچاؤ کے لیے جو مؤثر طریقہ اپنایا گیا ہے، وہ HPV ویکسین ہے، جو 9 سے 14 سال کی عمر کی لڑکیوں کو دی جاتی ہے تاکہ وہ بلوغت کے بعد اس مہلک بیماری سے محفوظ رہ سکیں۔ یہ ویکسین عالمی ادارۂ صحت (WHO) کی جانب سے منظور شدہ ہے اور اسے کئی ممالک نے اپنی قومی حفاظتی ٹیکہ جات مہم (Immunization Programme) میں شامل کر رکھا ہے۔

تاہم، پاکستان میں صورتِ حال خاصی مختلف ہے۔ HPV ویکسین نہ تو سرکاری ہسپتالوں میں دستیاب ہے اور نہ ہی اسے قومی ویکسینیشن پروگرام (EPI) کا حصہ بنایا گیا ہے۔ فی الحال یہ ویکسین صرف چند نجی اسپتالوں اور مخصوص علاقوں میں دستیاب ہے، جہاں اس کی قیمت 8,000 سے 15,000 روپے فی ڈوز تک ہو سکتی ہے، جبکہ ایک مکمل کورس کے لیے دو سے تین ڈوز درکار ہوتی ہیں۔ اتنی بھاری لاگت متوسط اور غریب طبقے کے لیے ناقابلِ برداشت ہے، جس کے باعث لاکھوں بچیاں اس بنیادی صحت کے حق سے محروم ہیں۔

اس کے علاوہ، ایک اور بڑی رکاوٹ سماجی اور ثقافتی رویے ہیں۔ چونکہ HPV جنسی طور پر منتقل ہونے والا وائرس ہے، اس لیے والدین، اساتذہ اور یہاں تک کہ بعض ڈاکٹر بھی اس موضوع پر کھل کر بات کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ معاشرے میں شرم و حیاء کے غلط تصور اور لاعلمی کی وجہ سے بہت سے والدین ویکسین کو غیر ضروری یا قابلِ اعتراض سمجھتے ہیں۔ یہ رویہ نہ صرف بچیوں کو خطرے میں ڈال رہا ہے، بلکہ خواتین کی صحت کے مجموعی نظام کو بھی متاثر کر رہا ہے۔

حکومتِ پاکستان اور صحت کے اداروں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ HPV ویکسین کو فوری طور پر قومی ویکسین پروگرام کا حصہ بنائیں،GAVI جیسے عالمی اداروں سے تعاون حاصل کریں، اور عوام میں وسیع پیمانے پر آگاہی مہمات چلائیں۔ اسکولوں، دینی مدارس، والدین اور کمیونٹی لیڈرز کو شامل کر کے ایک جامع حکمتِ عملی اپنائی جائے تاکہ یہ پیغام عام کیا جا سکے کہ HPV ویکسین جنسی بے راہ روی سے متعلق نہیں، بلکہ ایک سائنسی، محفوظ اور زندگی بچانے والی ویکسین ہے۔

اگر ہم نے بروقت اقدامات نہ کیے تو آنے والے برسوں میں سروائیکل کینسر کے کیسز میں تشویشناک اضافہ دیکھنے کو ملے گا۔ ایک محفوظ اور صحت مند پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ ہم اس حساس مگر اہم موضوع پر سنجیدگی سے غور کریں اور ہر بچی کو وہ تحفظ فراہم کریں جس کی وہ حقدار ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں