عالمی بینک کی حالیہ رپورٹ میں پاکستان کی معیشت کے بارے میں گہری تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق ملک اس وقت ایک نازک مرحلے سے گزر رہا ہے جہاں کئی معاشی اشاریے شدید دباؤ کا شکار ہیں۔ معاشی ترقی کی رفتار سست پڑ چکی ہے، مہنگائی بلند ترین سطح پر ہے، اور زرمبادلہ کے ذخائر میں خطرناک حد تک کمی واقع ہو چکی ہے۔ ان تمام عوامل نے نہ صرف عوام کی زندگی کو متاثر کیا ہے بلکہ مجموعی قومی معیشت کو بھی غیر مستحکم کر دیا ہے۔
پاکستان میں مہنگائی کئی مہینوں سے مسلسل بڑھ رہی ہے، خاص طور پر خوراک، ایندھن، اور بجلی کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ اس سے عوام کی قوتِ خرید بری طرح متاثر ہوئی ہے اور غریب طبقہ بدترین معاشی مشکلات کا شکار ہے۔ رپورٹ کے مطابق اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ روزمرہ زندگی کو ناقابل برداشت بنا چکا ہے اور متوسط طبقے کو بھی پیچھے دھکیل رہا ہے۔
اس کے ساتھ ہی پاکستان کی اقتصادی ترقی کی رفتار، یعنی جی ڈی پی گروتھ ریٹ، میں نمایاں کمی آئی ہے۔ صنعتی پیداوار، زراعت اور خدمات کا شعبہ سست روی کا شکار ہیں، جس کے باعث روزگار کے مواقع کم ہو گئے ہیں اور بے روزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے۔ سرمایہ کاری کے شعبے میں بھی جمود طاری ہے، اور کاروباری طبقہ غیر یقینی صورتحال کے باعث نئی سرمایہ کاری سے گریزاں ہے۔
ایک اور اہم نکتہ جس کی نشاندہی رپورٹ میں کی گئی ہے وہ پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر میں تشویشناک حد تک کمی ہے۔ ملک کے پاس بمشکل چند ہفتوں کی درآمدات کے لیے ذخائر بچے ہیں، جس کی وجہ سے روپے پر دباؤ بڑھ رہا ہے اور اس کی قدر ڈالر کے مقابلے میں گرتی جا رہی ہے۔ روپے کی کمزوری کے سبب درآمدی اشیاء مزید مہنگی ہو رہی ہیں، جو مہنگائی میں مزید اضافہ کر رہی ہے۔
عالمی بینک کی رپورٹ میں پاکستان پر قرضوں کے بڑھتے ہوئے بوجھ پر بھی شدید تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے۔ قرضوں کی ادائیگی، خاص طور پر سود کی رقم، ملکی بجٹ کا بڑا حصہ ہڑپ کر جاتی ہے، جس کی وجہ سے عوامی فلاح و بہبود کے منصوبے متاثر ہوتے ہیں۔ قرضوں پر انحصار بڑھنے سے خودمختاری بھی متاثر ہوتی ہے اور عالمی مالیاتی اداروں کے ساتھ سخت شرائط پر مذاکرات کرنا پڑتے ہیں۔
رپورٹ میں حکومتِ پاکستان کو فوری اور مؤثر معاشی اصلاحات پر عملدرآمد کی سختی سے سفارش کی گئی ہے۔ ان اصلاحات میں ٹیکس نظام کی بہتری، سرکاری اداروں کی کارکردگی میں بہتری، بجٹ خسارے میں کمی، اور توانائی کے شعبے کی بحالی شامل ہیں۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا ہے کہ سوشل سیفٹی نیٹس، جیسے کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام، کو وسعت دے کر کمزور طبقے کو معاشی تحفظ فراہم کیا جائے۔
آخر میں عالمی بینک نے یہ بھی واضح کیا کہ اگر موجودہ معاشی پالیسیوں میں سنجیدہ تبدیلی نہ لائی گئی، تو پاکستان کو عالمی مالیاتی اداروں کی مدد حاصل کرنے میں مشکلات پیش آ سکتی ہیں۔ غیر ملکی سرمایہ کار پہلے ہی پاکستان میں سرمایہ کاری سے گریز کر رہے ہیں، جس سے معیشت کی رفتار مزید سست ہو رہی ہے۔ موجودہ صورتحال ایک واضح پیغام دیتی ہے کہ دیرپا معاشی بہتری کے لیے محض وقتی اقدامات کافی نہیں، بلکہ فیصلہ کن اور مشکل معاشی اصلاحات ناگزیر ہو چکی ہیں۔







