درختوں کے درمیان “بات چیت” کا تصور سننے میں کسی افسانے کی طرح لگتا ہے، مگر یہ دراصل سائنسی طور پر ثابت شدہ حقیقت ہے۔ ماہرِ ماحولیات پروفیسر سوزان سیمارڈ (Suzanne Simard) اور اُن کی ٹیم نے یونیورسٹی آف برٹش کولمبیا (University of British Columbia) میں کئی سال کی تحقیق کے بعد یہ انکشاف کیا کہ درخت زمین کے نیچے موجود ایک فنگس (Fungi) کے جال کے ذریعے ایک دوسرے سے رابطہ کرتے ہیں۔
یہ زیرِ زمین جال، جسے سائنسدانوں نے “Wood Wide Web” کا نام دیا ہے، دراصل باریک فنگس کے دھاگوں (mycorrhizal network) پر مشتمل ہوتا ہے جو درختوں کی جڑوں کو ایک دوسرے سے جوڑ دیتا ہے۔ اس نظام کے ذریعے درخت **غذائیت، پانی، کیمیکل سگنلز اور حتیٰ کہ خطرات کے پیغامات بھی ایک دوسرے کو بھیجتے ہیں۔ مثال کے طور پر جب کسی درخت پر کیڑے حملہ کرتے ہیں تو وہ اسی جال کے ذریعے اپنے قریب موجود درختوں کو خطرے کا پیغام بھیج دیتا ہے تاکہ وہ پہلے سے دفاعی کیمیکلز تیار کر سکیں۔
تحقیقات سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جنگلات میں موجود بڑے اور پرانے درخت جنہیں “Mother Trees” کہا جاتا ہے، اپنے اردگرد موجود چھوٹے پودوں کو غذائی اجزاء فراہم کرتے ہیں، بالکل اسی طرح جیسے ماں اپنے بچوں کی پرورش کرتی ہے۔ یہ درخت نہ صرف اپنی ہی نسل کے پودوں کو زیادہ مدد دیتے ہیں بلکہ پورے ماحولیاتی نظام کے توازن کو برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
پروفیسر سیمارڈ کی اس تحقیق نے انسانی سوچ کو بدل کر رکھ دیا — اب درختوں کو صرف خاموش مخلوق نہیں سمجھا جاتا بلکہ انہیں ایک مواصلاتی نیٹ ورک کا حصہ تصور کیا جاتا ہے جو مسلسل ایک دوسرے سے “بات” کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ دریافت اس بات کا ثبوت ہے کہ قدرت کے اندر بھی ایک خاموش مگر منظم رابطے کا نظام موجود ہے جو زندگی کو برقرار رکھنے میں اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔







