حکومت کا بڑا فیصلہ: بیوٹی پارلرز اور ڈاکٹرز کو ٹیکس نیٹ میں لانے کی تیاری

حکومت کی جانب سے بیوٹی پارلرز اور نجی طور پر پریکٹس کرنے والے ڈاکٹرز کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے فیصلے کو ایک بڑی معاشی اصلاح سمجھا جا رہا ہے، کیونکہ یہ دونوں شعبے سالانہ اربوں روپے کی سرگرمیوں کے باوجود بڑے پیمانے پر ٹیکس کے دائرے سے باہر رہے ہیں۔ حکومتی رپورٹوں کے مطابق ملک بھر میں ہزاروں بیوٹی پارلرز، اسکن کلینکس، ڈینٹل سینٹرز اور ڈاکٹرز کی پرائیویٹ پریکٹس ایسے طریقے سے چل رہی ہے جہاں آمدن کا زیادہ تر حصہ باضابطہ طور پر ظاہر نہیں کیا جاتا، جس سے قومی خزانے کو بھاری نقصان پہنچتا رہا ہے۔

نئے منصوبے کے تحت حکومت ان کاروباروں کی ڈیجیٹل رجسٹریشن، آن لائن مانیٹرنگ، POS سسٹمز، ماہانہ انکم رپورٹنگ اور بجلی و کرایہ ڈیٹا انٹیگریشن جیسے اقدامات پر کام کر رہی ہے، تاکہ اصل آمدن کا درست سراغ لگایا جا سکے۔ بڑی سیلون چینز، مہنگے اسکن اینڈ لیجر کلینکس، پرائیویٹ سرجنز اور ایسے ڈاکٹرز جو روزانہ درجنوں مریض دیکھتے ہیں، ان سب کو شفاف طریقے سے ٹیکس دینا ہوگا۔

حکومت کا کہنا ہے کہ اس اقدام سے ٹیکس چوری میں نمایاں کمی آئے گی، جبکہ ایمنسٹی یا آسان اقساط جیسے اسکیموں کے ذریعے کاروباری برادری کو سہولت بھی دی جائے گی۔ ماہرین کا خیال ہے کہ جب بڑے نان-فائلر سیکٹرز ٹیکس نیٹ میں شامل ہوں گے تو مجموعی ٹیکس کا بوجھ عام عوام پر کم ہو سکے گا اور قومی آمدنی میں اضافہ ہوگا۔

دوسری جانب کچھ ڈاکٹرز اور بیوٹی انڈسٹری کے مالکان کا مؤقف ہے کہ حکومت کو ٹیکس لگانے سے پہلے ریگولیشن، لائسنسنگ، سروس اسٹینڈرڈز اور کاروباری سہولیات بہتر بنانی چاہئیں، تاکہ نظام سب کے لیے قابلِ قبول اور منصفانہ ہو۔

مجموعی طور پر یہ اقدام پاکستان میں ٹیکس بیس بڑھانے اور معاشی نظم و ضبط بہتر کرنے کی جانب ایک اہم قدم قرار دیا جا رہا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں