جون 2025 میں گلگت بلتستان میں سات برس بعد پہلی بار پولیو کا کیس سامنے آیا — ملک بھر میں 11 واں کیس شمار ہوتا ہے۔ وائرس کراچی سے گلگت پہنچنے کی ممکنہ وجوہات میں سیاحتی نقل و حرکت شامل ہے .13 جولائی 2025 کو ملک میں 13 ویں پولیو کیس کی تصدیق ہوئی، اور فضلہ جات کے نمونے 20 زونز سے مثبت آئے، جن میں شمالی اضلاع بھی شامل ہیں ۔تیسری قومی مہم 26 مئی سے 1 جون 2025 تک چلی، جس میں پنجاب، کراچی، اور شمالی رہائشی علاقوں سمیت 45.4 ملین بچوں کو ویکسینیٹ کرنے کا ہدف مقرر تھا ۔خیبرپختونخوا میں 21–25 اپریل 2025 کی مہم میں 6.5 ملین بچوں کو قطرے دینے تھے، 35,460 ٹیمیں فعال، اور 50,000 سکیورٹی اہلکار تعینات تھے.جنوبی KP کے علاقوں میں رسائی اور مانیٹرنگ کی مشکلات نے امیونٹی خلیجیں پیدا کی ہیں — ویکسین مہم میں غیرحاضری کے سبب وائرس دوبارہ پھیلا ۔
گلگت بلتستان میں پہلی بار پولیو کی رپورٹنگ نے خطرے کی موجودگی اور ناکافی حفاظتی اقدامات کی نشاندہی کی ہے ۔شمال مغربی پاکستان میں پولیو ٹیموں کے حمایتی پولیس اہلکاروں کو حملوں کا سامنا ہے.ان حملوں کی ذمہ داری کوئی مخصوص گروپ نہیں لیتا۔شمالی اضلاع میں مخصوص طالبان/انتہا پسند علاقوں میں گھر گھر ویکسینیشن لازمی ہے تاکہ ہر بچے تک پولیو کی قطرہ پہنچے۔مقامی بااثر شخصیات اور مذہبی رہنماؤں کی شمولیت ضروری ہے تاکہ ویکسین کے خلاف مایوسی اور دغا بازی کا تدارک ہو۔محکمہ صحت، WHO، UNICEF اور فوجی معاونت کے ساتھ مل کر حفاظتی ٹیمیں تشکیل دینا لازم ہے۔
شمالی علاقوں میں پولیو کیسز پہلی مرتبہ سامنے آنے کے بعد یہ واضح ہو گیا ہے کہ ماس ویکسینیشن، پبلک اعتماد سازی، اور سکیورٹی کے مکمل انتظامات کے ذریعے ہی ملک کو پولیو سے پاک کیا جا سکتا ہے۔