وفاقی حکومت نے ری کنڈیشنڈ (استعمال شدہ) گاڑیوں کی تجارتی بنیادوں پر درآمد کی اجازت دے دی

وفاقی حکومت نے حال ہی میں تجارتی بنیادوں پر ری کنڈیشنڈ (استعمال شدہ) گاڑیوں کی درآمد کی اجازت دے دی ہے، جو کہ ایک اہم پالیسی تبدیلی سمجھی جا رہی ہے۔ اس فیصلے کے تحت اب کاروباری افراد پانچ سال تک پرانی گاڑیاں تجارتی مقصد کے لیے درآمد کر سکیں گے، تاہم 30 جون 2026 کے بعد گاڑیوں کی عمر کی حد بھی ختم کر دی جائے گی۔ اس اقدام کا مقصد مارکیٹ میں گاڑیوں کی دستیابی بڑھانا اور قیمتوں میں استحکام لانا ہے۔

یہ اقدام بنیادی طور پر عوام کو سستی گاڑیوں کی فراہمی کو ممکن بنانے اور گاڑیوں کی قیمتوں میں مقابلہ پیدا کرنے کے لیے کیا گیا ہے۔ پاکستان میں نئی گاڑیوں کی قیمتیں مسلسل بڑھتی جا رہی ہیں، اور مقامی آٹو مینوفیکچررز پر اس حوالے سے بارہا تنقید کی گئی ہے کہ وہ محدود ماڈلز فراہم کرتے ہیں اور مارکیٹ میں اجارہ داری قائم رکھتے ہیں۔

تاہم اس پالیسی کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ درآمد شدہ گاڑیوں پر حکومت نے ریگولیٹری ڈیوٹی اور کسٹمز چارجز بھی لاگو کیے ہیں۔ پہلے سال یعنی 2025-26 میں ایسی گاڑیوں پر 40 فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی عائد کی گئی ہے، جو کہ ہر سال کم ہوتی جائے گی — اور 2029-30 تک مکمل طور پر ختم کر دی جائے گی۔ اس کا مقصد ایک طرف گاڑیوں کی درآمد سے حاصل ہونے والی آمدن کو قائم رکھنا ہے، اور دوسری طرف بتدریج مقامی آٹو انڈسٹری کو وقت دینا ہے کہ وہ اپنی کارکردگی بہتر کرے اور مقابلے کی فضا میں خود کو ڈھال سکے۔

اس فیصلے کو بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (IMF) سے کیے گئے معاہدوں کا حصہ بھی قرار دیا جا رہا ہے، جہاں پاکستان نے تجارتی رکاوٹیں کم کرنے، مارکیٹ کو زیادہ آزاد کرنے اور صارف دوست پالیسیاں متعارف کروانے کا وعدہ کیا تھا۔

مقامی آٹو انڈسٹری اس پالیسی پر تحفظات کا اظہار کر رہی ہے، کیونکہ ان کے مطابق یہ فیصلہ مقامی پیداوار کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ لیکن عوامی سطح پر اس اقدام کو مثبت قدم قرار دیا جا رہا ہے، کیونکہ اس سے گاڑیوں کی قیمتیں کم ہونے اور زیادہ آپشنز دستیاب ہونے کی امید پیدا ہو گئی ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں