ایک زمانہ تھا جب کتاب انسان کی بہترین دوست سمجھی جاتی تھی۔ علم، سوچ، تربیت اور کردار سازی کا سب سے مضبوط ذریعہ یہی تھی۔ گھر کے ہر کمرے میں کتابوں کی خوشبو ہوا کرتی تھی، اسکولوں کے کتاب میلوں میں بچوں کا ہجوم لگا رہتا تھا، اور لائبریریاں نوجوانوں کے فکری قلعے کہلاتی تھیں۔ مگر آج کے دور میں، اس دوستی کی جگہ ایک مصنوعی دنیا نے لے لی ہے — اسمارٹ فون، سوشل میڈیا اور تیز رفتار ڈیجیٹل مواد نے مطالعے کی عادت کو تقریباً مٹا دیا ہے۔
آج کی نئی نسل معلومات تو حاصل کرتی ہے، مگر علم نہیں۔ وہ خبریں جانتی ہے، مگر فہم و شعور سے خالی ہے۔ چند سیکنڈ کی ویڈیوز، سوشل میڈیا پوسٹس اور میمز کے عادی نوجوانوں کے پاس گہرے مطالعے، تجزیے اور سوچنے کا وقت ہی نہیں رہا۔ کتاب وہ آئینہ ہے جو انسان کو خود اس کی حقیقت دکھاتی ہے، مگر اب یہ آئینہ گرد آلود ہو چکا ہے۔
یہ فکری خلا صرف فرد تک محدود نہیں رہا بلکہ معاشرے کی اجتماعی سوچ پر بھی اثر انداز ہو رہا ہے۔ ہم دلیل کے بجائے آواز بلند کرنے لگے ہیں، اختلافِ رائے کو دشمنی سمجھنے لگے ہیں، اور سطحی معلومات کو علم کا نعم البدل مان بیٹھے ہیں۔ یہی وہ رویے ہیں جو قوموں کے زوال کی بنیاد بنتے ہیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم کتاب کو محض نصابی مجبوری نہیں بلکہ فکری ضرورت سمجھیں۔ والدین اگر بچوں کو کہانیاں سنانے کے بجائے اسکرین کے حوالے کر دیں تو یہ خاموش المیہ نسل در نسل منتقل ہوتا رہے گا۔ اسکولوں اور جامعات کو لائبریریوں کو فعال بنانا ہوگا، اور نوجوانوں کو یہ احساس دلانا ہوگا کہ کتاب صرف علم نہیں دیتی، بلکہ شخصیت بناتی ہے۔
ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ جو قومیں کتابوں سے رشتہ توڑ دیتی ہیں، وہ اپنی تاریخ، تہذیب اور سوچ سے بھی کٹ جاتی ہیں۔ کتاب کو دوبارہ ہاتھ میں لینا، اصل میں اپنی فکری شناخت کو واپس حاصل کرنے کے مترادف ہے۔







