پاکستان کے سرحدی علاقوں میں غیر قانونی ڈرون حملوں، اسمگلنگ اور نگرانی کے بڑھتے ہوئے خطرات کے پیشِ نظر حکومت و دفاعی اداروں نے ایک جدید انسدادِ ڈرون دفاعی نظام متعارف کروا کر ایک اہم قدم اٹھایا ہے۔ یہ نظام، جسے مقامی صنعت نے تیار کیا ہے، روایتی ہتھیاروں کے مقابلے میں نرم اور بروقت ردِ عمل فراہم کرتا ہے — بنیادی مقصد غیر مجاز یو اے وی (UAV) کو پکڑنا یا ان کے آپریشن کو ناکارہ بنانا ہے تاکہ سرحدی سلامتی، شہری تحفظ اور حیاتیاتی/اسٹریٹجک حساس مقامات کی حفاظت ممکن بن سکے۔
اس نظام میں عموماً جامنگ (jamming) اور سِگنل انٹیلیجنس/ڈیٹیکشن صلاحیتیں شامل ہوتی ہیں: یعنی ڈرون کے کنٹرول اور نیویگیشن سگنلز کی تشخیص، فریکوئنسیز کا پتہ لگانا، اور پھر انہی فریکوئنسیز کو جام کر کے ڈرون سے اس کے کنٹرولر کا رابطہ منقطع کیا جاتا ہے یا اسے محفوظ لینڈنگ/واپس گھر بھیجا جاتا ہے۔ مقامی تیار کردہ نظام ہونے کی وجہ سے تکنیکی معاونت اور اپ گریڈنگ بھی تیزی سے ممکن ہو گی، اور ہارڈویئر کی فراہمی بیرونِ ملک انحصار سے کم ہو گی۔
اس قسم کے نظام عام طور پر کمانڈ کنٹرول، ریڈیو فریکوئنسی، جی پی ایس/نیویگیشن سگنلز اور ویڈیو لنکس کو نشانہ بناتے ہیں۔ حکومتی اور دفاعی ذرائع نے واضح کیا ہے کہ یہ نظام شہری آبادی میں خطرے کم کرنے کے لیے ہدفی اور محدود پیمانے پر استعمال کیا جائے گا تاکہ قانونی اور انسانی حقوق کے دائرہ کار کو پامال نہ کیا جائے — یعنی بے حساب جامنگ یا عام فضا میں وسیع پیمانے پر خلل ڈالنے سے گریز کیا جائے گا۔
تاثیر اور نفاذ کے لحاظ سے یہ نظام پہلے مرحلے میں حساس سرحدی علاقوں، بارڈر پوسٹس، اہم تنصیبات اور ایسے مقامات پر تعینات کیے جائیں گے جہاں ڈرونز کے ذریعے اسمگلنگ، جاسوسی یا حملے کے امکانات زیادہ ہوں۔ اس کے ساتھ فرنٹ لائن سیکیورٹی فورسز اور مقامی کمانڈرز کو خصوصی تربیت دی جائے گی تاکہ وہ نظام کو مناسب حالات میں بروئے کار لا سکیں اور غیر ضروری مداخلت سے بچا جا سکے۔
اس اقدام کے مثبت اثرات میں سرحدی سکیورٹی کا مضبوط ہونا، اسمگلنگ کے راستوں میں کمی، اور شہریوں کی حفاظت میں اضافہ قابلِ ذکر ہے۔ مقامی طور پر تیار ہونے کی وجہ سے دفاعی خود کفالت، مقامی صنعتی ترقی اور نئی ٹیکنالوجی میں مہارت کے فروغ کے امکانات بھی بڑھتے ہیں — یہ دفاعی صنعت کے لیے روزگار اور تحقیق و ترقی کے نئے دروازے کھولتا ہے۔
تاہم چند چیلنجز بھی موجود ہیں: جامنگ ٹیکنالوجی کے ممکنہ ماحولیاتی اثرات، سول ایوی ایشن یا اضطراری مواصلاتی نظام پر غیر ارادی خلل، اور تکنیکی پیچیدگیاں جن میں جدید ڈرونز کی خودکار نیویگیشن یا اینٹی جامنگ صلاحیتیں شامل ہیں۔ ان مسائل کو کم کرنے کے لیے واضح آپریٹنگ پروٹوکول، قوانین اور بین الصوبائی/وفاقی سطح پر نگرانی کے میکانزم مرتب کرنا ضروری ہوگا۔
اخیر میں، یہ قدم پاکستان کے دفاعی و سیکیورٹی ڈھانچے میں ایک جدید عنصر کا اضافہ ہے جو بدلتے ہوئے حملہ آور طریقوں کے مقابلے میں ملک کو بہتر طور پر تیار کر سکتا ہے۔ کامیابی اس بات پر منحصر ہوگی کہ نظام کو تکنیکی طور پر اپ ٹو ڈیٹ رکھا جائے، آپریشن کے دوران قانونی اور اخلاقی حدود کا خیال رکھا جائے، اور مقامی سیکیورٹی ایجنسیز کے ساتھ موثر رابطہ و تربیت برقرار رکھی جائے۔







