ہمارا معاشرہ بظاہر ایک ترقی پذیر معاشرہ ہے، مگر اندر سے یہ ایک ایسی گہری خلیج میں ڈوبا ہوا ہے جس کا نام ہے: طبقاتی نظام۔ یہ وہ نظام ہے جس میں انسانوں کی قدر ان کی اخلاقی خوبیوں یا تعلیم سے نہیں بلکہ ان کی جیب، لباس، زبان اور رہن سہن سے کی جاتی ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ فرق محض معاشی نہیں رہا، بلکہ اب معاشرتی حیثیت، عزت اور یہاں تک کہ انصاف تک رسائی بھی اسی طبقاتی بنیاد پر تقسیم ہو چکی ہے۔
ایک طرف بڑے بڑے ہاؤسنگ سوسائٹیز میں رہنے والے افراد ہیں، جنہیں پینے کا صاف پانی، بہترین تعلیمی ادارے، مہنگے اسپتال اور ہر آسائش دستیاب ہے؛ اور دوسری طرف وہ کروڑوں عوام ہیں جن کی صبح دو وقت کی روٹی کے لیے فکر میں اور رات فٹ پاتھ پر نیند میں گزرتی ہے۔ یہی وہ خلا ہے جو ایک قوم کو تقسیم کرتی ہے — امیر اور غریب، بااختیار اور بےبس، آواز رکھنے والے اور دبے ہوئے۔
ہماری عدالتیں، ہمارے تعلیمی ادارے، ہمارا نظامِ صحت — سب کہیں نہ کہیں اس طبقاتی تقسیم کے شکار ہیں۔ غریب اگر جرم کرے تو حوالات، اور امیر اگر جرم کرے تو ضمانت۔ غریب اگر بیمار ہو تو سرکاری اسپتال کی لمبی قطاریں، اور امیر کے لیے ایئرکنڈیشنڈ کمرے اور نجی ڈاکٹرز۔ تعلیم کی دنیا میں بھی یہی حال ہے، جہاں ایک طرف بین الاقوامی نصاب پڑھنے والے بچے ہیں، اور دوسری طرف اردو میڈیم سرکاری اسکولوں میں لکڑی کی بینچوں پر بیٹھے علم کے متلاشی۔
معاشرتی ناانصافی کا یہ عالم ہے کہ عام آدمی کے لیے صرف جینا ہی ایک چیلنج ہے۔ نہ روزگار یقینی، نہ انصاف فوری، نہ علاج ممکن، نہ تعلیم سستی۔ اور اگر کوئی آواز اٹھائے، تو اسے یا تو دبا دیا جاتا ہے یا “ملک دشمن” قرار دے دیا جاتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ جب تک ہم اس طبقاتی نظام کی جڑوں کو نہیں کاٹیں گے، اس وقت تک نہ ہم ایک متحد قوم بن سکیں گے، نہ ترقی یافتہ ملک، اور نہ ہی ایک انصاف پسند معاشرہ۔ اس ناانصافی کا خاتمہ صرف قانون سازی سے نہیں بلکہ سوچ کی تبدیلی، نظام کی شفافیت، اور عوامی بیداری سے ممکن ہے۔
ہمارے مذہب، ہمارے آئین، اور ہماری اخلاقی اقدار سب انسانوں کو برابر سمجھنے کا پیغام دیتے ہیں۔ لیکن جب تک ہم اس پیغام کو عملی شکل نہیں دیں گے، تب تک یہ صرف کتابوں میں لکھی سطریں ہی رہیں گی۔







