کراچی میں دودھ کی قیمتوں میں حالیہ اضافے نے عوام کو ایک نئی مالی پریشانی میں مبتلا کر دیا ہے۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق، شہر میں دودھ کی سرکاری قیمت 220 روپے فی لیٹر مقرر کی گئی ہے، لیکن کئی علاقوں میں یہ 240 سے 260 روپے تک فروخت ہو رہا ہے۔ یہ اضافہ صرف صارفین کے لیے ایک معاشی بوجھ نہیں بلکہ ڈیری انڈسٹری میں موجود ساختی مسائل کا مظہر بھی ہے۔ ڈیری فارمرز کا مؤقف ہے کہ جانوروں کے چارے، فیڈ، ادویات، اور بجلی کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافے کے باعث دودھ کی پیداواری لاگت میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ دوسری جانب، ایندھن کی قیمتوں میں اضافے اور ٹرانسپورٹ کے اخراجات نے صورتحال کو مزید سنگین بنا دیا ہے۔ ماحولیاتی عوامل جیسے بارشیں اور سیلاب بھی مویشیوں کی خوراک و صحت پر اثرانداز ہوئے ہیں، جس کے نتیجے میں دودھ کی پیداوار کم ہوئی اور طلب بڑھنے کے باعث قیمتیں اوپر چلی گئیں۔ حکومت کی جانب سے مقرر کردہ نرخ اکثر کاغذوں تک محدود رہتے ہیں، کیونکہ عملدرآمد کا کوئی مؤثر نظام موجود نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دودھ فروش من مانی قیمتیں وصول کرتے ہیں اور صارفین بےبس نظر آتے ہیں۔ دودھ جیسی بنیادی ضرورت کی چیز کا مہنگا ہونا صرف ایک مالی مسئلہ نہیں، بلکہ غذائی قلت، بچوں کی نشوونما اور مجموعی صحت پر بھی منفی اثر ڈال سکتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت ڈیری سیکٹر کو سبسڈی فراہم کرے، قیمتوں کے تعین میں شفافیت لائے اور سخت مانیٹرنگ کے ذریعے عوام کو ریلیف دے، تاکہ یہ روزمرہ کی بنیادی سہولت ہر فرد کی دسترس میں باقی رہ سکے۔
دودھ کی قیمت 260 روپے تک جا پہنچی، سرکاری نرخ بے اثر
- فیس بک
- ٹویٹر
- واٹس ایپ
- ای میل







