پاکستانی وزیر بلال بن ثاقب نے اپنے حالیہ خطاب میں نہایت اہم نکتہ اٹھایا ہے کہ ترقی پذیر ممالک کو مصنوعی ذہانت (AI) کو محض ایک تکنیکی سہولت کے طور پر نہیں، بلکہ ایک اسٹریٹجک ضرورت کے طور پر اپنانا ہوگا۔ انہوں نے واضح کیا کہ دنیا تیزی سے ڈیجیٹل دور میں داخل ہو چکی ہے، اور اگر ترقی پذیر ممالک نے بروقت اقدامات نہ کیے تو وہ عالمی سطح پر مزید پسماندگی کا شکار ہو سکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ مصنوعی ذہانت صرف ترقی یافتہ ممالک کا کھیل نہیں ہے، بلکہ ترقی پذیر اقوام بھی اس سے بھرپور فائدہ اٹھا سکتی ہیں — خاص طور پر تعلیم، صحت، زراعت، مالیاتی نظام، اور سرکاری نظام کو بہتر بنانے میں۔ بلال بن ثاقب کے مطابق، AI کی بدولت نوجوان نسل کے لیے روزگار کے نئے مواقع پیدا ہو سکتے ہیں، جیسے کہ ڈیٹا سائنس، مشین لرننگ، روبوٹکس، اور خودکار نظاموں کی تیاری و تنصیب میں۔
انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ AI کو اپنانے کے لیے صرف سافٹ ویئر یا ایپلی کیشنز کافی نہیں، بلکہ ہمیں ڈیجیٹل انفراسٹرکچر کو بہتر بنانا ہوگا — جیسے کہ انٹرنیٹ کی تیز رفتاری، ڈیٹا سینٹرز، اور سائبر سیکیورٹی کے مضبوط نظام۔ اس کے علاوہ، تعلیم کے شعبے میں بھی بڑے پیمانے پر اصلاحات کی ضرورت ہے تاکہ نوجوانوں کو جدید ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ کیا جا سکے۔
بلال بن ثاقب نے حکومت کو مشورہ دیا کہ وہ ایسے اقدامات کرے جو نجی شعبے، تعلیمی اداروں، اور بین الاقوامی اداروں کے ساتھ شراکت داری کو فروغ دیں۔ ساتھ ہی، AI سے جڑے سماجی و اخلاقی چیلنجز پر قابو پانے کے لیے موثر قانون سازی اور نگرانی کے نظام کی بھی اشد ضرورت ہے۔
ان کا یہ بیان ترقی پذیر ممالک کے لیے ایک تنبیہ بھی ہے اور ایک موقع بھی — کہ اگر وہ بروقت تیاریاں کریں، تو AI ان کے لیے ایک نیا ترقی کا دروازہ ثابت ہو سکتا ہے، ورنہ یہ فرق مزید بڑھتا چلا جائے گا۔







