اکتوبر 2025 میں حکومتِ پاکستان نے عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمتوں میں کمی کے بعد پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں معمولی کمی کا اعلان کیا، جسے عوام نے وقتی ریلیف کے طور پر دیکھا۔ تاہم جب ان قیمتوں کی تفصیلات سامنے آئیں تو معلوم ہوا کہ فی لیٹر قیمت کا ایک بڑا حصہ مختلف اقسام کے ٹیکسز، لیویز اور حکومتی چارجز پر مشتمل ہے، جس نے عوامی ریلیف کو کافی حد تک غیر مؤثر بنا دیا۔
فی الوقت فی لیٹر پٹرول پر مجموعی طور پر تقریباً 94.89 روپے کا بوجھ عوام پر ڈالا جا رہا ہے۔ اس میں کسٹم ڈیوٹی 14.37 روپےہے، جو ہر درآمد شدہ لیٹر پر حکومت وصول کرتی ہے۔ سب سے بڑا حصہ پیٹرولیم لیوی کا ہے، جو کہ 78.02 روپے فی لیٹر ہے۔ یہ لیوی براہِ راست وفاقی حکومت کے خزانے میں جاتی ہے اور اس کا استعمال عموماً ترقیاتی اخراجات یا قرضوں کی ادائیگی میں ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ، ایک نئی کلائمٹ سپورٹ لیویبھی شامل کی گئی ہے جو کہ 2.50 روپے فی لیٹرہے، جسے ماحولیاتی تحفظ کے لیے مخصوص بتایا جاتا ہے۔
اسی طرح، ہائی اسپیڈ ڈیزل (HSD) پر بھی ٹیکسز کی شرح کچھ کم نہیں۔ فی لیٹر ڈیزل پر تقریباً 95.35 روپےکے مختلف ٹیکسز اور لیویز لاگو ہیں، جن میں کسٹم ڈیوٹی 15.84 روپے پیٹرولیم لیوی 77.01 روپے، اور کلائمٹ سپورٹ لیوی 2.50 روپےشامل ہیں۔
قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ فی الوقت پٹرول اور ڈیزل پر جنرل سیلز ٹیکس (GST)صفر فیصد ہے، جو ماضی میں ایک بڑا ٹیکس ہوتا تھا۔ تاہم اس کی غیر موجودگی کے باوجود دیگر لیویز اتنی زیادہ ہیں کہ عوام کو قیمتوں میں کمی کا حقیقی فائدہ نہیں مل پا رہا۔
کاربن یا کلائمٹ سپورٹ لیوی کو ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے ایک مثبت قدم کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے، لیکن جب یہ اضافی چارجز براہِ راست عوام سے وصول کیے جاتے ہیں تو یہ مہنگائی میں مزید اضافے کا سبب بنتے ہیں، خصوصاً ایسے وقت میں جب عام آدمی پہلے ہی معاشی دباؤ کا شکار ہے۔
مجموعی طور پر دیکھا جائے تو پٹرولیم مصنوعات پر عائد یہ بھاری بھرکم ٹیکسز اور لیویز حکومت کے ریونیو بڑھانے کے اقدامات کا حصہ ہیں، لیکن ان کے اثرات عوامی جیب پر براہِ راست پڑ رہے ہیں۔ ماہرین کے مطابق اگر حکومت واقعی عوامی ریلیف دینا چاہتی ہے تو ان ٹیکسز میں کمی کر کے عالمی قیمتوں کا فائدہ براہِ راست صارفین تک منتقل کرنا ہوگا۔ بصورت دیگر، قیمتوں میں کمی کا اعلان محض ایک علامتی قدم ہی تصور کیا جائے گا۔







