لاہور میں اسموگ ایک سنگین ماحولیاتی اور صحت کا مسئلہ بن چکی ہے، جس کی بنیادی وجوہات انسان کے پیدا کردہ عوامل ہیں۔ شہر کی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی اور بے تحاشا شہری ترقی نے فضا کو آلودہ کر دیا ہے۔ سب سے نمایاں وجہ گاڑیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد ہے۔ لاہور کی سڑکوں پر روزانہ لاکھوں گاڑیاں چلتی ہیں، جن میں سے اکثر پرانی یا ناقص حالت میں ہوتی ہیں، اور ان سے نکلنے والا دھواں فضا میں کاربن مونو آکسائیڈ، سلفر ڈائی آکسائیڈ اور نائٹروجن آکسائیڈ جیسے زہریلے کیمیکلز شامل کر دیتا ہے۔
اسی طرح شہر کے اردگرد موجود صنعتی علاقے بھی آلودگی کے بڑے مراکز ہیں۔ اینٹوں کے بھٹّے، اسٹیل فیکٹریاں، اور سیمنٹ پلانٹس بغیر کسی فلٹر یا جدید ٹیکنالوجی کے دھواں چھوڑتے ہیں، جو فضا میں دھول، راکھ اور مضر گیسوں کی مقدار میں اضافہ کرتا ہے۔ ایک اور بڑی وجہ پنجاب کے زرعی علاقوں میں فصلوں کی باقیات کو جلانا ہے۔ کسان جب گندم یا چاول کی کٹائی کے بعد کھیتوں میں آگ لگاتے ہیں تو اس کا دھواں سینکڑوں کلومیٹر دور تک پہنچتا ہے اور لاہور سمیت پورے وسطی پنجاب میں اسموگ کی تہہ بنا دیتا ہے۔
مزید برآں، لاہور میں جاری تعمیراتی منصوبے بھی فضا میں گرد و غبار کی بڑی مقدار پیدا کرتے ہیں۔ جب یہ ذرات فضا میں معلق رہتے ہیں اور سردیوں کے موسم میں درجہ حرارت میں کمی اور ہوا کی رفتار میں کمی آتی ہے، تو یہ زمین کے قریب جم کر ایک گہری تہہ بناتے ہیں جسے ہم “اسموگ” کی شکل میں دیکھتے ہیں۔ کوئلے اور کم معیار کے ایندھن کا استعمال بھی فضا کو زہریلا بنا دیتا ہے۔
یہ تمام عوامل مل کر لاہور کی فضا کو شدید آلودہ کر دیتے ہیں، جس کے نتیجے میں شہریوں کو سانس لینے میں دشواری، آنکھوں میں جلن، گلے کی سوزش، اور دل و پھیپھڑوں کی بیماریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے — جیسے کہ گاڑیوں کے اخراج پر قابو، فصلوں کے فضلے کے متبادل استعمال، اور صنعتی آلودگی پر سخت پابندیاں — تو لاہور کا ماحولیاتی بحران آنے والے برسوں میں مزید خطرناک صورت اختیار کر سکتا ہے۔







