ٹماٹر کی قیمت 500 روپے فی کلو تک پہنچ جانا ایک سنگین معاشی اور سماجی مسئلہ بن چکا ہے۔ ٹماٹر، جو کہ ہر گھر کے باورچی خانے میں روزانہ استعمال ہونے والی بنیادی سبزی ہے، اس کی اتنی بلند قیمت نے متوسط اور غریب طبقے کو شدید متاثر کیا ہے۔ ٹماٹر کا استعمال سالن، چٹنی، سلاد اور مختلف کھانوں میں ناگزیر ہے، اور اس کی عدم دستیابی یا مہنگائی سے نہ صرف گھر کے کھانے متاثر ہو رہے ہیں بلکہ ہوٹلوں، ریستورانوں اور چھوٹے کھانے کے اسٹالز پر بھی اس کا اثر صاف دکھائی دے رہا ہے۔
ٹماٹر کی قیمتوں میں اس قدر اضافے کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ اول، موسمی حالات جیسے کہ غیر متوقع بارشیں، سیلاب، یا خشک سالی کی وجہ سے فصلوں کو نقصان پہنچتا ہے، جس سے پیداوار میں واضح کمی آتی ہے۔ دوم، ٹرانسپورٹیشن کے مسائل، جیسا کہ ایندھن کی قیمتوں میں اضافہ، ہڑتالیں یا سڑکوں کی خراب صورتحال، بھی ترسیل میں رکاوٹ بنتی ہیں۔ سوم، ذخیرہ اندوزی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ بعض تاجران جان بوجھ کر بڑی مقدار میں ٹماٹر ذخیرہ کر لیتے ہیں تاکہ جب مارکیٹ میں قلت ہو تو وہ انہیں دوگنی یا تین گنا قیمت پر بیچ سکیں۔ چہارم، حکومتی نگرانی کی کمی اور منڈیوں میں مناسب ریگولیشن نہ ہونے کے باعث بھی ناجائز منافع خوری عروج پر ہے۔
ان حالات میں عام شہری بے بسی کا شکار نظر آتا ہے۔ وہ چیزیں جو کبھی چند روپے میں دستیاب تھیں، اب ان کے لیے ترسنا پڑ رہا ہے۔ حکومت کی جانب سے اگر فوری اور مؤثر اقدامات نہ کیے گئے تو یہ صورتحال نہ صرف دیگر سبزیوں اور اشیائے خورونوش کی قیمتوں کو بھی متاثر کرے گی بلکہ عوام میں بے چینی اور بداعتمادی کو جنم دے گی۔
اس مسئلے کے حل کے لیے ضروری ہے کہ حکومت فوری طور پر ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کارروائی کرے، زرعی پالیسیوں پر نظرِ ثانی کرے، کسانوں کو براہِ راست مارکیٹ تک رسائی دے، اور سبزیوں کی ترسیل کا نظام بہتر بنائے۔ اس کے علاوہ، اگر ممکن ہو تو دوسرے ممالک سے عارضی بنیادوں پر ٹماٹر درآمد کر کے مارکیٹ میں توازن پیدا کیا جا سکتا ہے۔ عوام کو بھی چاہیے کہ وہ برداشت اور حکمت سے کام لیں اور ناجائز منافع خوروں کا بائیکاٹ کریں۔







