ہارن کا شور اور ضمیر کی خاموشی

شہروں کی ترقی اور جدیدیت کا اندازہ وہاں کے ٹریفک نظام سے لگایا جا سکتا ہے۔ لیکن افسوس کہ پاکستان کے بیشتر شہروں میں ٹریفک کا نظام بدترین صورتحال سے دوچار ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر حادثات، ٹریفک جام، اور غیرذمہ دارانہ ڈرائیونگ معمول بن چکی ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ شہری شعور کی کمی اور ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی ہے۔

ہمارے معاشرے میں ڈرائیونگ کو صرف گاڑی چلانے تک محدود سمجھا جاتا ہے، جبکہ درحقیقت یہ ایک سماجی ذمہ داری ہے۔ لائسنس کے بغیر ڈرائیونگ، سگنل توڑنا، غلط سائیڈ پر آنا، فٹ پاتھ پر موٹر سائیکل چلانا اور پارکنگ کے اصولوں کی خلاف ورزی جیسے رویے عام ہو چکے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ ایسے افراد کو جرم کا احساس تک نہیں ہوتا، بلکہ وہ اسے اپنی چالاکی یا “ہوشیاری” سمجھتے ہیں۔

ٹریفک پولیس قوانین نافذ کرنے کی کوشش کرتی ہے مگر عوامی تعاون کے بغیر کوئی نظام کامیاب نہیں ہو سکتا۔ شہریوں کی اکثریت نہ تو ٹریفک کے اشاروں کی پابندی کرتی ہے اور نہ ہی پیدل چلنے والوں کے حقوق کا احترام۔ یہی لاپرواہی روزانہ درجنوں قیمتی جانوں کے ضیاع کا باعث بنتی ہے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ ٹریفک قوانین کی آگاہی کو تعلیم کے نصاب میں شامل کیا جائے اور میڈیا کے ذریعے مستقل مہم چلائی جائے۔ والدین کو چاہیے کہ بچوں کو شروع سے ہی سڑک پر نظم و ضبط کا شعور دیں۔ اگر ہر شہری یہ طے کر لے کہ وہ صرف اپنی حد میں رہ کر قانون کی پابندی کرے گا تو پورا نظام خودبخود درست ہو سکتا ہے۔

ایک مہذب معاشرہ وہی ہوتا ہے جہاں قوانین پر عمل درآمد صرف خوف سے نہیں بلکہ شعور اور ذمہ داری کے احساس سے کیا جائے۔ جب تک ہم ٹریفک قوانین کو اپنی روزمرہ زندگی کا حصہ نہیں بنائیں گے، تب تک حادثات، بد نظمی اور وقت کا ضیاع ہماری سڑکوں کا مقدر بنا رہے گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں