عالمی بینک کا انکشاف: پاکستان کی شہری آبادی 88 فیصد ہو گئی

عالمی بینک نے اپنی حالیہ رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ پاکستان میں شہریت کاری (Urbanisation) کی شرح توقع سے کہیں زیادہ ہے، اور حقیقی طور پر ملک کی تقریباً 88 فیصد آبادی اب شہری طرزِ زندگی اختیار کر چکی ہے۔ یہ اعداد و شمار سرکاری اندازوں سے دو گنا سے بھی زیادہ ہیں، کیونکہ سرکاری طور پر پاکستان میں شہری آبادی 38 فیصد بتائی جاتی ہے۔

رپورٹ کے مطابق، اگرچہ پاکستان کے کئی علاقے بظاہر “دیہی” شمار کیے جاتے ہیں، لیکن وہاں زندگی کے طریقے، معاشی سرگرمیاں اور سہولتیں اب شہری علاقوں سے مشابہ ہو چکی ہیں۔ مثلاً، چھوٹے قصبوں اور دیہات میں مارکیٹس، تعلیمی ادارے، سڑکیں، انٹرنیٹ اور بجلی جیسی سہولیات عام ہو گئی ہیں، جس سے طرزِ زندگی میں نمایاں تبدیلی آئی ہے۔

عالمی بینک کے مطابق یہ تبدیلی صرف جغرافیائی نہیں بلکہ معاشی اور سماجی ڈھانچے میں بھی ایک بڑی تبدیلی کی علامت ہے۔ لوگ تیزی سے دیہی معیشت سے نکل کر شہری معیشت میں شامل ہو رہے ہیں، جہاں خدمات، تجارت، تعلیم، اور انڈسٹری کے شعبے ترقی کر رہے ہیں۔

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پاکستان کا انفراسٹرکچر اور شہری منصوبہ بندی اب اس حقیقی شہری آبادی کے مطابق نہیں ہے۔ اگر حکومت شہری آبادی کے اصل حجم کو تسلیم نہیں کرے گی، تو ٹرانسپورٹ، رہائش، پانی، صفائی، صحت، اور روزگار کے مسائل مزید بڑھ سکتے ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اس رپورٹ نے ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے — کیا پاکستان اب “شہری ملک” بن چکا ہے؟ کیونکہ 88 فیصد شہری طرزِ زندگی کے حامل معاشرے کو روایتی “زرعی ملک” کے طور پر دیکھنا اب حقیقت سے دور ہے۔

یہ رجحان اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ پاکستان کا مستقبل دیہی نہیں بلکہ شہری ترقی، جدید ٹیکنالوجی، بہتر تعلیم، اور پائیدار شہری منصوبہ بندی پر منحصر ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں